شکستہ دل کو یہ کتنا بڑا دلاسہ ہے
حضور آپ کی مدحت ہی استغاثہ ہے
خبر ہے قاتلِ جاں کو، حریفِ حرمت کو
ہمارا مرشِد و ہادی ترا نواسہؑ ہے
مَیں اوڑھ لیتا ہوں پورے بدن کو خیر کے ساتھ
کہ تیرا نام تمازت میں اک ردا سا ہے
یہ کشتِ جاں تری رحمت شعار دید طلب
یہ دشتِ دل ترے ابرِ کرم کا پیاسا ہے
تہی بہ حرف ہوں پھر بھی ہوں تیرا مدح سرا
خطا سرشت ہوں لیکن تری ہی آسا ہے
نواز دیتے ہیں مجھ سے بھی بے نوا کو وہ
مرے کریم کی بخشش کا یہ ہی خاصہ ہے
بس ایک حرف جو اُن کے کرم کے شایاں ہو
کتابِ زیست کا اتنا سا ہی خلاصہ ہے
گلوئے عجز میں نعتوں کا ہار ہے مقصودؔ
سو مطمئن ہوں کہ بھاری مرا اثاثہ ہے