اردوئے معلیٰ

شہرِ شوق و عشق میں گزرے اگر یہ زندگی

تو نہ ہو درپیش کوئی بھی غمِ آئندگی

 

دے رہا ہے گنبدِ سر سبز ہی صبح و مسا

آسماں پر مہر و ماہ و نجم کو تابندگی

 

پھر مدینے کے تصور نے کیا ہے دم بہ خود

چاہیے شہرِ مدینہ کی مجھے باشندگی

 

بہرِ دفعِ ظلمتِ عہدِ رواں رکھوں گا میں

عکسِ پائے مصطفیٰ سینے پہ ساری زندگی

 

میں سنہری جالیوں کے سامنے آ تو گیا

پر نظر اُٹھتی نہیں ہے از پےِ شرمندگی

 

خدمتِ سرکار پر مامور رب نے جب کیا

فخر سے جبریل نے لی آپ کی کارندگی

 

ثانیِ طیبہ ہے پاکستان کہتے ہیں جسے

تا قیامِ روزِ آخر دیں اسے پائندگی

 

نعت کے صدقے ملی ہے مجھ کو منظر سر بہ سر

خوش بیانی خوش گُمانی اور خوش آئندگی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ