اردوئے معلیٰ

شہرِ نبی کو جب بھی کوئی جانے لگتا ہے

میں دل کو، اور دل مجھ کو سمجھانے لگتا ہے

 

جب بھی دیکھتا ہوں میں اپنی عمرِ گریزاں کو

روضۂ اطہر کا منظر یاد آنے لگتا ہے

 

دستِ سخا کوئی ایسا نہیں جو اپنے سائل پر

عرضِ طلب سے قبل کرم فرمانے لگتا ہے

 

نعت کا شاعر ذکرِ نبی کی ٹھنڈی چھاؤں میں

غمِ زمانہ سے تھک کر سستانے لگتا ہے

 

مایوسی کے دَور کی اِن بے چین فضاؤں میں

ان کا تصور لمحوں کو مہکانے لگتا ہے

 

اسمِ محمد کی خوشبو لَو دینے لگتی ہے

غنچۂ دل میرا جونہی مُرجھانے لگتا ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ