صبح کے آثار میں سے تھا
جب بجھ گیا تو ورثۂ بیکار میں سے تھا
آساں ہوئی ہیں منزلیں، اچھا ہوا لٹا
رختِ سفر کہ جان کے آزار میں سے تھا
خنجر مرا تھا ہاتھ میں اُس کے، سپر مری
نکلا مگر وہ لشکرِ اغیار میں سے تھا
زنداں لگا مجھے تو یہ دورانِ زندگی
سارا نظارہ روزنِ دیوار میں سے تھا
نوکِ قلم سے گر کے کہیں کھو گیا ظہیؔر
اک حرف جو خزینۂ اسرار میں سے تھا