طوفان میں جزیرہ ملا ہے، زمیں ملی
پانی کی قید سے تو رہائی نہیں ملی
ابر رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں
بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی
دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین
چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی
جھوٹی انا کا تخت، زر مصلحت کا تاج
جب کھو دیئے تو دولتِ صدق و یقیں ملی
تھکتی نہیں ہے سجدۂ فرعون وقت سے
موسیٰ کے حامیوں کو یہ کیسی جبیں ملی
پردیس آ کے مر گئی دریا دلی ظہیرؔ
پانی کہیں کا تھا جسے مٹی کہیں ملی