اردوئے معلیٰ

عشقِ سرکار مری ہستی کا عرفاں ٹھہرا

شکر صد شکر اُسی ذات پہ ایقاں ٹھہرا

 

اس لیے زیست کی دشواری ہوئی ہے آساں

آسرا میرا حضور آپ کا داماں ٹھہرا

 

چاند بن کر وہ چمکتا ہے مری راتوں میں

یادِ آقا میں جو آنسو سرِ مژگاں ٹھہرا

 

پھول ہر گام مرے دل میں کھلے جاتے ہیں

جب سے ہے میرا سفر سوئے گلستاں ٹھہرا

 

ذاتِ اقدس کے حوالے سے جو الفاظ لکھے

نقطہ نقطہ مری تحریر کا تاباں ٹھہرا

 

نعت گوئی میں بھلا اور سعادت کیا ہے

ایک بھی لفظ اگر آپ کے شایاں ٹھہرا

 

اُس کی برکت سے جہانوں میں ضیائیں پھوٹیں

اک وہی نام دو عالم میں درخشاں ٹھہرا

 

اُن پہ اُتری ہے کتاب ایسی فدا محشر تک

جس کی عظمت کا خدا خود ہی نگہباں ٹھہرا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ