عشقِ نبی جو دل میں بسایا نہ جائے گا
سر سے نحوستوں کا یہ سایہ نہ جائے گا
اصغرؓ کے خُوں سے اِس کو جلایا حُسینؓ نے
’’ پُھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ‘‘
سہتے رہے اذیتیں ، کہتے رہے بلالؓ
عشقِ رسول دل سے نکالا نہ جائے گا
ہم بے کسوں کی لاج بھی رکھنا مرے کریم !
تیرا کہا تو حشر میں ٹالا نہ جائے گا
وابستہ ہے جو آپ کے دامن سے یا نبی
محشر میں وہ غُلام رُلایا نہ جائے گا
جن کو مرے کریم نے بخشی ہے روشنی
ہوں ظُلمتیں ہزار ، اُجالا نہ جائے گا
ہر گز لحد میں فیصلہ ہوگا ، نہ جب تلک
جلوہ رُخِ نبی کا دکھایا نہ جائے گا
رخصت ہوا جلیل مدینے سے جس گھڑی
لمحہ وہ دل خراش بُھلایا نہ جائے گا