عشق سرکار کا ہی کافی ہے
دل میں یہ اک دیا ہی کافی ہے
اور دعاؤں کی ہم کو کیا حاجت
لب پہ صلِ علیٰ ہی کافی ہے
دونوں عالم کے بخشوانے کو
حق ہے بس مصطفی ہی کافی ہے
کیوں نہ ذکرِ نبی کروں ہر دم
مجھ پہ ان کی عطا ہی کافی ہے
کیسے جاؤں میں جانبِ طیبہ
بہر عصیاں سیاہی کافی ہے
میرے امراض کو شفاء خاطر
اس گلی کی ہوا کی کافی ہے
میں کہیں اور کیوں قمر ؔجاؤں
وہ حبیبِ خدا ہی کافی ہے