عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے
حضور کے ہیں مطیع جذبے
نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہیں
درِ نبی پر جمیع جذبے
ملا ہے اعزازِ نعت جب سے
ہوئے ہیں تب سے وسیع جذبے
قدومِ سرور میں سر خمیدہ
عقیدتوں کے وقیع جذبے
پہنچ گئے ایک پل میں بطحا
محبتوں کے سریع جذبے
خدا سے مانگا ہے عشقِ سرور
وہ سن رہا ہے سمیع، جذبے
وہی ہیں اشفاقؔ خوش مقدر
ملے ہیں جن کو بدیع جذبے