عقیدتوں کا ہماری محور حضور کا نقشِ پا ہوا ہے
تبھی تو عکسِ حسین اس کا ہمارے سر پر سجا ہوا ہے
ہر اک نظر کو لبھا رہا ہے سبھی زمانے فدا ہیں اُس پر
کچھ ایسی جدت سے اور ندرت سے سبز گنبد بنا ہوا ہے
درود پڑھتا ہوں روز و شب میں سخن کو اِس سے رسد ہے جاری
بس اِس وظیفے کی برکتوں سے ہی اذنِ مدحت عطا ہوا ہے
تمھارے منگتے تمھاری جانب تمھی سے لینے چلے ہمیشہ
کہ بابِ رحمت ہر اک گدا کے لیے ہمیشہ کُھلا ہوا ہے
نظر یہ آتا ہے دیکھنے میں کہ ہاتھ دونوں ہیں اُن کے خالی
مگر یہ پوچھیں ابو ہریرہ سے اُن کا دامن بھرا ہوا ہے
جو چار سو لہلہا رہا ہے مرے وطن کا یہ سبز پرچم
مجھے یقیں ہے یہ سبز گنبد کی اقتدا میں ہرا ہوا ہے
دگر نظارے کی سمت بھٹکی ،نہ وقتِ دیدارِ حق سے بہکی
وہ چشمِ مازاغ ہے خدا کی سند سے سُرمہ لگا ہوا ہے
کریم ایسے ہیں پھیرتے ہیں وہ جان ہو یا نماز کوئی
درِ رسالت پہ فرض کوئی کبھی کسی کا قضا ہوا ہے؟
بس اک کماں کا یا اس سے بھی کم کا فاصلہ تھا حبیب و رب میں
تبھی تو رشکِ نگاہِ عالم وہ جاے قصرِ دنٰی ہوا ہے
سجی ہے دستارِ مدحِ آقا ہمارے سر ہم دمک رہے ہیں
فقط یہ نعتِ نبی کا ہے نور جس سے منظر سجا ہوا ہے