غریب ہوں میں، حبیبِ خُدا غریب نوازگدائے در میں، درِ مصطفی غریب نواز
درِ حضور کی نسبت سے ہی میں زندہ ہوں
وسیلہ آپ، مرا آسرا، غریب نواز
حضور بندہ نواز و غریب پرور ہیں
ہیں بے نواؤں کے حاجت روا، غریب نواز
سکونِ قلب وہ دیتے ہیں دل گرفتوں کو
ہیں دل نواز بہت دلربا، غریب نواز
میں حمد اور درود و سلام پڑھتا ہوں
خُدا بھی سنتا ہے میری صدا، غریب نواز
ہرا ہو پھر سے خزاں دیدہ گلشنِ اُمت
یہی دُعا ہے یہی مُدعا، غریب نواز
میں کم ترین ہوں خادم ظفرؔ! مرے آقا
خُدارا در سے نہ کرنا جُدا، غریب نواز