اردوئے معلیٰ

فراق زاد ، اگر آرزو کا بس چلتا

یقین کر تجھے پلکوں سے مورچھل جھلتا

 

رہِ فراق پہ اترے نہ تتلیوں کے قدم

تمام عمر رہا بام پر دیا جلتا

 

افق سے کھینچ نہ لیتی سیاہ رات اگر

تو آفتاب بھلا آسماں سے کیوں ڈھلتا

 

گنوا سکا ہوں تبھی تو کہ تم میسر تھے

کئی برس میں رہا تھا یہ حادثہ پلتا

 

ترے فقیر کی جھولی میں اور وقت نہ تھا

تو وقتِ آخرِ امید کس طرح ٹلتا

 

رہا نہ دوش پہ سر ہی وگرنہ ماتھے پر

تمہارے نقشِ کفِ پا کی خاک ہی ملتا

 

جہانِ رُو بہ تغیر میں عہدِ رفتہ ہوں

مرے مزاج کا سکہ یہاں نہیں چلتا

 

وہ خواب خاک ہوا مصلحت کے صحرا میں

جو تیرے لمس کی بارش میں پھولتا پھلتا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ