اردوئے معلیٰ

 

فلک سے خوشبو بکھر رہی ہے، زمیں کا چہرہ دمک رہا ہے

سحر نمودار ہو رہی ہے، نقاب رُخ سے سِرک رہا ہے

 

تری ولادت سے ریگ صحرا کا ذرہ ذرہ چمک رہا ہے

قلم قصیدہ سُنا رہا ہے، سُخن کا طائر چمک رہا ہے

 

بصارتوں کو ملی بصیرت، نبی کی صورت تمام رحمت

احد کے شفاف آئینے میں، وہ نور احمد دمک رہا ہے

 

کرم خدا کا ہماری قسمت، وہ نور بن کر کچھ ایسے آئے

کہ دشت و گلشن کا ذرہ ذرہ، مہک رہا ہے مہک رہا ہے

 

کلی کلی مسکرا رہی ہے، عرب کا صحرا چمن چمن ہے

وفور اُلفت میں نور یزداں، زمیں کی جانب لپک رہا ہے

 

نفس نفس میں ہے اُس کا نغمہ، نظر نظر میں ہے اُس کا جلوہ

ہماری آنکھوں کی پُتلیوں میں، وہ نور بن کر دمک رہا ہے

 

وہ جان ہستی اگر نہ ہوتے، نہ باغ ہوتے، نہ پھول کھلتے

اُسی کی خاطر جہاں بنا ہے، وہ گلؔ جہاں میں مہک رہا ہے۔

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ