فیضِ مدحت سے مرے دل کی فضا کیف میں ہے
نعتِ سرور کی ہوئی ہے جو عطا کیف میں ہے
مجھ کو طیبہ کی زیارت ہو عطا اے مولا
ایک مدت سے یہی لب پہ دعا کیف میں ہے
ان کے قدموں کو خداوند نے برکت بخشی
’’چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے‘‘
آپ کے در سے گدا خالی نہ پھرتے دیکھا
بھیک جس کو بھی ملی ہے وہ سدا کیف میں ہے
جس گھڑی ان کی کرم بار گھٹا جھوم اٹھی
زاؔہدِ خستہ پہ تنزیلِ ثنا کیف میں ہے