نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے
وہی بانگِ رحیلِ کارواں تھے
چراغِ راہ تھے منزل نشاں تھے
امیرِ مسلمِ ہندوستاں تھے
وہ ہندی میکدے میں اک اذاں تھے
نوائے خوش سروشِ دلستاں تھے
دماغ و دل تھے وہ سب کی زباں تھے
وہ پوری قوم کی روحِ رواں تھے
ضعیفی تھی مگر بوڑھے کہاں تھے
اولو العزمی کے پہلو سے جواں تھے
بظاہر گو نحیف و ناتواں تھے
بباطن وہ مگر کوہِ گراں تھے
تنِ مسلم میں وہ قلبِ تپاں تھے
رگِ ملت میں وہ خونِ رواں تھے
سوا افروختہ داغِ نہاں تھے
سکوتِ شب میں وہ سوتے کہاں تھے
دمِ تقریر یوں معجز بیاں تھے
کہ سب انگشت حیرت در دہاں تھے
خموشی بھی سخن پرور تھی ان کی
کبھی جب بولتے تو دُر فشاں تھے
نگاہوں سے ٹپکتی تھی ذہانت
متانت کے وہ اک کوہِ گراں تھے
غمِ دنیا سے تھی گو بے نیازی
غمِ ملت سے لیکن خوں چکاں تھے
مذاقِ غزنوی رکھتے تھے دل میں
بتوں کے حق میں تیغِ بے اماں تھے
ہلے ان کے نہ پائے استقامت
وہیں تھے تا دمِ آخر جہاں تھے
اٹھایا قم باذن اللہ کہہ کر
مسیحا دم برائے مردہ جاں تھے
ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے
وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے
نظرؔ رحمت کی ہو ان پر خدایا
وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے