قبائے عجز میں سہمے ہوئے سوال کے ساتھ
حضور نعت ہوں لایا نئے خیال کے ساتھ
کچھ ایسے ہی مری ہستی میں نعت ہے، جیسے
چٹک اُٹھے کوئی غنچہ شکستہ ڈال کے ساتھ
متاعِ حرف و سخن میں کہاں وہ آب وہ تاب
جو اِذن ہو تو لکھوں نعت اب دھمال کے ساتھ
اسی لئے تو ہیں فطرت کے سب حوالے ُحسن
کہ ربط رکھتے ہیں وہ تجھ سے خوش خصال کے ساتھ
حروفِ شوق تو عاجز ہیں اور قاصِر بھی
سو اُس کی نعت ہو اُس کے ہی خدّ و خال کے ساتھ
نہیں زمانے، مَیں تیرا نہیں ذرا مقروض
مَیں جی رہا ہُوں سخی کے ہی اُس نوال کے ساتھ
اُسی کے اذن پہ موقوف ہے سخن مقصودؔ
یہ کام قال سے ممکن ہے اور نہ حال کے ساتھ