قریب آ کے ہمیں اور دور جانا تھا
چراغ جلتے ہی آنکھوں کا نور جانا تھا
تمہیں بھی جاہلوں کے پیر چھونے آگئے ہیں
تمہیں تو میں نے بڑا با شعور جانا تھا
وہ ڈوبنے کی اداکاری کرتے ڈوبا ہے
وگرنہ میں نے مدد کو ضرور جانا تھا
بچھڑ کے آپ سے دنیا کے ہو گئے تو کیا
کسی طرف تو ہمیں اب حضور جانا تھا
دکھوں کے رنگ دہکتے تھے دل کی شاخوں پر
وہ جن کو میں نے محبت کا بور جانا تھا
جسے خدا کی رضا کے لیے بجا لایا
وہی عمل مرا سب نے فجور جانا تھا
ہمارے عاجزی پر کس طرح نہ ہنستے لوگ ؟
ہمارے عجز کو سب نے غرور جانا تھا
کسی کے وصل کو آغاز ِ زندگی سمجھا
کسی کے ہجر کو یوم نشور جانا تھا
عدو کے ہاتھ بکا ہے وہی سپاہی فقیہہ
وہ جس کو حد سے زیادہ غیور جانا تھا