اردوئے معلیٰ

قلب ہو جائے جو پتھر تو بشر پتھر کا

پھر تو ہر آدمی آتا ہے نظر پتھر کا

 

سنگباری ہوئی اتنی کہ شرر ہو گیا خون

کچھ تو ہونا ہی تھا آخر کو اثر پتھر کا

 

عشقِ بیناکی عنایت ہے یہ ترتیبِ صفات

آئنہ چہرہ، بدن پھول، جگر پتھر کا

 

کارِ شیشہ گری نازک سا ہے بالائے سطح

زیرِ شیشہ ہے وہی کام مگر پتھر کا

 

یا تو رستے کی رکاوٹ یا کسی سر کا نصیب

یعنی ٹھوکر سے سروں تک ہے سفر پتھر کا

 

پہلے گھڑتا ہے خدا، پھر وہی تیشے بھی سبھی

آزرِ عصر کے ہاتھوں میں ہنر پتھر کا

 

دشمنوں کو ہے کھلی دعوتِ شب خون ظہیرؔ

کانچ کی اپنی فصیلیں ہیں، نگر پتھر کا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات