اردوئے معلیٰ

قوت ہی بے پناہ تھی مرکز گریز کی

سو محورِ حیات سے کٹنا پڑا مجھے

 

فطری تھی اس قدر تری ہجرت کی آرزو

ناچار تیری راہ سے ہٹنا پڑا مجھے

 

ہمراہ چل دیا ہوں دلِ لخت لخت کے

بس یہ کہ شش جہات میں بٹنا پڑا مجھے

 

ائے بے قرار فطرتِ سیماب غرق ہو

سو بار منزلوں سے پلٹنا پڑا مجھے

 

آئے تری نفی کے مراحل تو بعد میں

پہلے مرے یقیں سے نمٹنا پڑا مجھے

 

دوپہر تک بلند نہیں مجھ میں کچھ رہا

سائے میں اپنے آپ سمٹنا پڑا مجھے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ