لب پہ نعت شہِ ابرار ہے پیاری پیاری
دھڑکنوں میں بھی یہی ورد ہے جاری جاری
لے کے جاتی تھی حلیمہ جو مرے آقا کو
کہتی جاتی تھی میں قربان میں واری واری
ڈال دیتے ہیں لعاب اپنا جب اس میں آقا
پھر نہیں رہتا کنواں کوئی بھی کھاری کھاری
دونوں عالم کو محیط آپ کی رحمت شاہا
نوری نوری بھی کرم یافتہ ناری ناری
نیکیوں میں ہوئے تبدیل گنہ گاروں کے
جس قدر بوجھ گناہوں کے تھے بھاری بھاری
میرے سرکار ہی پہنچیں گے شفاعت کے لیے
خلق محشر میں پھری جس گھڑی ماری ماری
پہلے پہنچیں گے غلامانِ پیمبر ازہرؔ
اُمتیں جائیں گی پھر خلد میں باری باری