لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا
میری سوچوں پر تو رہتا ہے اجارہ نور کا
آپ کے اوصاف ہیں اللہ کے قرآن میں
کر رہا ہے اُن کی مدحت پارہ پارہ نور کا
مہر و ماہ و کہکشاں میں آپ ہی کا نور ہے
بھیک دے کر آپ نے صدقہ اُتارا نور کا
جلوہ گر ہوتا تھا جو روح الامیں کے سامنے
آپ کے ماتھے پہ چمکا وہ ستارہ نور کا
چھٹ گئے سارے اندھیرے پھیلی ایسی روشنی
آ گئے بدر الدجٰی پھوٹا فوارہ نور کا
بحرِ ظلمت کے بھنور میں ڈوبنے کا ڈر نہیں
سامنے ہی مل گیا ہے اَب کنارا نور کا
ہے یہ حسرت بیٹھ جائیں اِن کے در کے سامنے
ہر گھڑی کرتے رہیں پھرہم نظارہ نور کا
نامِ احمد سے ملی ہے میرے دل کو روشنی
بھیک اِن کے نام کی ہے استعارہ نور کا
ناز سے ممکن کہاں تھی شاہِ عالَم کی ثنا
اس کی قسمت پاگئی پھر بھی اشارہ نور کا