اردوئے معلیٰ

لکیریں تھیں کچھ اور کچھ دائرے

بدلتے رہے آنکھ کے زاویے

 

جنہیں زعم تھا موم سے جسم پر

انہوں نے کئے سورجوں سے گِلے

 

امیروں کے لاکرز میں دھن کے ساتھ

غریبوں کے ارمان بھی بند تھے

 

محبت کی ہے میں نے اُس سے اگر

ضروری نہیں وہ بھی چاہے مجھے

 

تجھے ساتھ لے کر چلوں کس طرح

مِرے سر پہ موسم ہیں دُکھ دھوپ کے

 

اُسے ساونوں کی طلب جو ہوئی

سمندر مِری آنکھ میں آگئے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ