لہو کا رنگ مرا ترجمان ہو تو ہو
زبانِ حال سے قصہ بیان ہو تو ہو
میں چاہتا ہوں ملاقات ہو سکے خود سے
مگر گمان کبھی مہربان ہو تو ہو
افق کے پاس جو معدوم ہو گیا ہے ابھی
وہی غبار مرا کاروان ہو تو ہو
پہنچ چکے ہیں مرے پر ،زمین پر پہلے
مرے وجود کی باقی اڑان ہو تو ہو
یہ میرے شعر مرے درد ہیں سناؤں کیا
اب اس وجہ سے کوئی بدگمان ہو تو ہو