مائلِ مدحت ہے آج اپنی طبیعت مرحبا
لکھ رہا ہوں آج میں نعتِ شہِ ہر دو سرا
چاند نکلا جب کہ وہ بر مطلعِ ام القریٰ
اس نے روئے دہر کو یکسر مطلّا کر دیا
اٹھ گیا دستِ خدا جب آپ کا پیشِ خدا
پاؤں میں ان کے گرا پھر آدمی فاروقؓ سا
ہے سمندر حکمتوں کے موتیوں کا مرحبا
اپنی امت کو کتاب اک ایسی اس نے کی عطا
اس نے جب نعرہ لگایا وحدہٗ اللہ ہو
پردۂ افسونِ باطل چاک ہو کر رہ گیا
زیرِ سایہ شاہِ دیں کے جو بھی آیا بت پرست
بن گیا فی الفور مالک غزنوی کردار کا
شامِ غم پھٹکی نہ اس کے پاس پھر اصلاً کبھی
سایہ گستر ہو گئی جس پر کہ وہ زلفِ دوتا
خوبیاں کیا کیا ہیں اس آقائے طیبہ میں خوشا
نرم دل، پاکیزہ خو، شیریں سخن، شیریں ادا
جو کہ تھا بد مستِ صہبا ہو گیا مستِ الست
جبکہ ان کے میکدہ سے ساغرِ وحدت پیا
کب گوارا تھی جدائی ان سے دم بھر کے لئے
گرد ان کے جانثاروں کا رہا اک جمگھٹا
رحمۃ اللعٰلمیں فرمائیں گے یا امتی
نفسی نفسی جب کہیں سب انبیاء یومِ جزا
معجزہ شاہِ دو عالم کی قدم بوسی کا دیکھ
تھا جو پتھر دل نظرؔ پہلے جو پارس ہو گیا