کشمیر اور بوسینیا پر ظلم و ستم کے پس منظر میں کہی گئی نعتیہ نظم
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہِ روشن بہارِ عالم
ربیع الاوّل
بہارِ عالم، وہ ماہِ روشن کی تابشوں میں
مکاں کی ساری ہی وسعتوں میں
زماں کی ساری ہی ساعتوں میں
کسی کے رُخ کی جمال پرور
تجلّیاں ہیں کہ بس رہی ہیں
کسی کی زلفوں کی خوشبوئیں صد
ہزار جانب بکھر رہی ہیں
کسی کے لہجے کے شیریں انوار لمحہ لمحہ
سماعتوں میں اُتر رہے ہیں
اسی لیے تو
یہ ماہِ روشن بہارِ عالم
ربیع الاوّل
جہان بھر میں
مسرّتوں کا حسین عنوان بن گیا ہے
وفُورِ الفت ، ھجومِ راحت کی رونقوں میں
ربیع الاوّل
ہزار عیدوں کا ترجماں ہے
کوئی جو پوچھے کہ ماہِ روشن ، بہارِ عالم
یہ کس سبب سے نکھر گیا ہے، سنور گیا ہے
کہ رنگ و خوشبو کے بہتے دریا کی روشنی میں نہا گیا ہے
جواب میرا فقط یہی ہے
کہ اس مہینے کی ساعتوں نے ٹھہر ٹھہر کر، مچل مچل کر
خوشی سے اپنے بسیط داماں میں اک سراپا ئے حسن و خوبی کی سب اداؤں کو بھر لیا ہے
یہ اس لیے ہے
کہ اس مہینے کے لحظے لحظے نے خود لپک کر
اپنے پہلو میں
اک مجسّم جمال نکہت کے ہنستے ہونٹوں کی بجلیوں
کو سمو لیا ہے
وہ جس کے انوار کے مقابل تو چاند تک بھی خجل ہوا ہے
وہ جس کا چہرہ، زبانِ قرآں میں والضُّحیٰ ہے
وہ جس کے گیسوئے عنبریں کو
خدا بھی والّیل کہہ رہا ہے
وہ جس کا حسنِ ازل جہاں میں
جمال و حسن و کمال و خوبی کی انتہاؤں کی انتہا ہے
حدِّ امکاں سے بھی ورٰی ہے
وہ مصطفٰی ہے، وہ مجتبیٰ ہے
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
زمانے بھر کی حلاوتوں کی مٹھاس ساری نچوڑ لیجے
جہان بھر کی برودتوں کی تمام ٹھنڈک بھی جوڑ لیجے
جو ہو سکے تو
فلک کے تاروں کی، ماہِ کامل کی ، مہرِ تاباں کی روشنی بھی
زمین بھر کی فروزاں شمعوں کی، شب چراغوں کی ساری لَو بھی
چمکتے ہیروں کی، سب نگینوں کی، موتیوں کی کمال چھب بھی
گلاب چمپا کی ، یاسمن کی ، تمام قسموں کی ہر مہک بھی
حریرودیباو پرنیاں کی ملائمت کی ملائمت میں سمیٹ لیجے
پھر ان کی ساری
نفاستوں سے، نظافتوں سے، لطافتوں سے
جو کوئی نقشِ جمیل ابھرے
جو کوئی عکسِ حسین چمکے
جو کائناتِ جمال ٹھہرے
وہی ہے احمد وہی محمّد
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وہ حسنِ باطن وہ حسنِِ ظاہر
وہ نُورِ اوّل وہ نُورِ آخر
وہ روحِ گیتی
وہ جانِ عالم
’’ بے سایہ و سائبانِ عالم‘‘
وہ نُورِ حق کا جلیل پرتو
ہوا نہ جب تک تھا اس جہاں میں وہ نور افشاں وہ جلوہ آرا
تو نامکمل تھا دستِ قدرت کے شاہکاروں کا سب نظارا
اسی کی تکتے تھے راہ شب بھر
ستارے آنکھیں جھپک جھپک کر، چمک چمک کر
تمام کلیاں تمام غنچے
بس ایک اس کے ہی منتظر تھے
گھٹائیں اُٹھتی تھیں اس کی خاطر
ہوائیں گاتی تھیں گیت اس کے
اسی کے آنے کے شوق میں تو زمانہ کروٹ بدل رہا تھا
زمیں بھی اس کے ہی راستوں میں بچھی تھی آنکھیں بچھا رہی تھی
اسی کی راہوں میں چاند سورج بھی دوڑتے تھے مچل مچل کے
وہ شیث و نوح و خلیل ، یوسف
کلیم و عیسیٰ مسیح سارے
خدا کے جتنے پیامبر تھے
اسی کے رستے سجا رہے تھے
اسی کے ڈنکے بجا رہے تھے
اسی کی آمد کی سب نویدیں ،جہان بھر کو سنا رہے تھے
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہوا جو اس کا ظہورِ قدسی
زمانہ جھوما، زمین جھومی
ہوائیں مہکیں ، گھٹائیں برسیں، فضائیں چمکیں
گلوں پہ رنگِ شباب آیا
روش روش پہ نکھار آیا
نگارِ فطرت کے ذرّے ذرّے کو نُورِ فطرت نے جگمگایا
پھر ایسے نُور و سرور و رحمت کے جگمگوں میں وہ نُور آیا
یہ اس کے آنے کا ہی اثر تھا
کہ آگ جلتی ہزار برسوں کی بجھ گئی تھی
وہ قصرِ شاہاں کے اونچے مینار تھر تھرائے تھے گر گئے تھے
یہ اس کے آنے کی ھیبتیں تھیں
کہ بُت بھی سجدوں میں جا پڑے تھے
وہ ایسا دُرِّ یتیم آیا
کہ اس نے آکر
سبھی یتیموں کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھ کر
جہاں میں ان کا شرف بڑھایا
وہ ایسا ہادی کریم آیا
کہ اس نے آکر
عداوتوں کے ببول چُن کر
محبّتوں کا چمن بسایا
وہ ایسا محسن عظیم آیا
کہ اس نے آکر
ستم گروں کے ستم مٹا کر
عطا و بخشش کے گُل سجا کر
جمالِ انساں کو تازگی دی
وہ ایسا عادل عدیل آیا
کہ اس نے آکر
برابری کے چلن سکھا کر
تمیزِ خوردو کلاں مٹا کر
وہ بندگی کو عروج بخشا
کہ خواجگی کو بھی رشک آیا
وہ ایسا رہبر حلیم آیا
کہ اس نے آکر
منافقت کا ، مغائرت کا
دلوں سے یکسر نشاں مٹایا
ستم شعاروں کو دیں دعائیں
تو دشمنوں پر بھی رحم کھا کر،معاف کر کے گلے لگایا
وہی ہے انسانیت کا محسن
وہی ہے سب کا کریم آقا
عظیم آقا! کریم آقا!
رؤف آقا! رحیم آقا!
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مچی ہے دنیا میں دھوم اس کی
بپا ہے عالم میں جشن اس کا
ہے فرض ہر ایک آدمی پر
کہ اس کے آنے کی بہجتوں میں
مسرّتوں کے، محبتوں کے، عقیدتوں کے وہ گیت گائے
کہ سارے عالم کو وجد آئے
مجھے بھی ماہِ ربیع الاوّل
بصد بہاراں، بصد مسرّت
بلا رہا ہے، ہنسا رہا ہے
مجھے بھی لازم ہے موسمِ گل میں گیت گاؤں
خوشی مناؤں
میں ان بہاروں کو دوں سلامی
قدم قدم پر جبیں جھکاؤں
میں شکریے کے ہزاروں سجدے لٹاچکا ہوں لٹا رہا ہوں
میں ان بہاروں کا ہمنوا ہوں ، میں گیت بہجت کے گا رہا ہوں
مگر شگفتِ بہار میں بھی
اس عہدِ گُل کے نکھار میں بھی
مرے جگر میں اک آگ ایسی دہک رہی ہے
جو میری جاں کو جلا رہی ہے
میں ناتوانوں کے قافلے میں بھی سب سے پیچھے ہوں پا شکستہ
میں بے نواؤں کی انجمن میں بھی ایک ٹوٹی ہوئی صدا ہوں
مری ندامت ہی میرے دل کو
لہو کے آنسو رلا رہی ہے
مجھے ندامت ہے میرے رہبر
مرے پیمبر
میں جی رہا ہوں مگر جہاں میں
ارضِ کشمیر و بُوسینیا میں
حسین بچے، جمیل بوڑھے، جوان رعنا، عفیف بہنیں، نظیف مائیں
دریدہ کلیاں، بریدہ غنچے، لہو میں ڈوبی بدن قبائیں
مجھے رلائیں
مرے پیمبر
اے میرے رہبر
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سبزہ زاروں کی سرزمیں پر
گُلوں کے اس فرشِ مخملیں پر
ہزاروں لاکھوں گلاب چہرے
وہ تیرے دیں کی کتاب چہرے
وہ جراتوں کا نصاب چہرے
تجھی سے نسبت کے جرم میں وہ
کٹے پڑے ہیں
خاک و خوں میں اٹے پڑے ہیں
ستم گروں کے نگر میں جیسے
شرف و عزّ و ناموس کھو کر
ورق ورق وہ دریدہ ہو کر
بکھر گئے ہیں
ربیع الاول
بہارِ عالم کی گُل رُتوں میں
تری محبت کے نقش بن کر
لہو نہا کر نکھر گئے ہیں
مرے پیمبر!
اے میرے رہبر!
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
تری محبت میں غم کے مارے
دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں
وہ جانیں اپنی گنوا رہے ہیں
وہ گردنیں بھی کٹا رہے ہیں
لبوں پہ ان کے ہیں چپ کے تالے
دلوں سے اٹھتے ہیں پھر بھی نالے
اب ان کی آنکھیں
گدا کے کشکول بن کے چاروں طرف لگی ہیں
کوئی نہیں ہے جو آگے آئے
ان کے درد و الم مٹائے
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ربیع الاول کی ان بہاروں کو اک ذرا سا اشارہ دیجے
حکم کیجے
کہ ارضِ کشمیر و بوسینیا پر
کوئی کرم کی گھٹا اٹھائیں
کہیں سے کوئی دلیر قاسم
کہیں سے کوئی شجیع خالد
کہیں سے کوئی فاروق آئے ، جو ان کے درد و الم مٹائے
مرے پیمبر !
اے میرے رہبر !
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ترے فقیروں کی خیر آقا ! ترے گداؤں کی خیر آقا !
جو دب رہی ہیں جو بجھ رہی ہیں
اب ان صداؤں کی خیر آقا !
تری نمازوں کی خیر آقا ! تری اذانوں کی خیر آقا !
جو مٹ رہے ہیں سمٹ رہے ہیں
اب ان ترانوں کی خیر آقا !
شہیدِ کرب و بلا کا صدقہ
حنین و بدر و احد کے سارے وفا شعاروں کی جاں سپاری
وفا کا صدقہ
اب ارضِ کشمیر و بوسینیا سے
ستم کی گہری یہ رات بیتے
یوں جبر ٹوٹے یوں کفر بھاگے
کہ اہلِ حق کی سپاہ جیتے
کریم آقا ! عظیم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ربیع الاول کے زندہ لمحوں کو حکم دیجے
کہ ارضِ کشمیر و بوسینیا پر
نئی رُتوں میں نئی پھبن سے
نئی دھنک سے نئی مہک سے
روش روش پر بہار برسے
ربیع الاول کرم کی برکھا
رحمتوں کی پھوار برسے
کریم آقا ! عظیم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا
درود تجھ پر سلام آقا !
سلام تجھ پر درود آقا !
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہِ روشن بہارِ عالم
ربیع الاوّل
بہارِ عالم، وہ ماہِ روشن کی تابشوں میں
مکاں کی ساری ہی وسعتوں میں
زماں کی ساری ہی ساعتوں میں
کسی کے رُخ کی جمال پرور
تجلّیاں ہیں کہ بس رہی ہیں
کسی کی زلفوں کی خوشبوئیں صد
ہزار جانب بکھر رہی ہیں
کسی کے لہجے کے شیریں انوار لمحہ لمحہ
سماعتوں میں اُتر رہے ہیں
اسی لیے تو
یہ ماہِ روشن بہارِ عالم
ربیع الاوّل
جہان بھر میں
مسرّتوں کا حسین عنوان بن گیا ہے
وفُورِ الفت ، ھجومِ راحت کی رونقوں میں
ربیع الاوّل
ہزار عیدوں کا ترجماں ہے
کوئی جو پوچھے کہ ماہِ روشن ، بہارِ عالم
یہ کس سبب سے نکھر گیا ہے، سنور گیا ہے
کہ رنگ و خوشبو کے بہتے دریا کی روشنی میں نہا گیا ہے
جواب میرا فقط یہی ہے
کہ اس مہینے کی ساعتوں نے ٹھہر ٹھہر کر، مچل مچل کر
خوشی سے اپنے بسیط داماں میں اک سراپا ئے حسن و خوبی کی سب اداؤں کو بھر لیا ہے
یہ اس لیے ہے
کہ اس مہینے کے لحظے لحظے نے خود لپک کر
اپنے پہلو میں
اک مجسّم جمال نکہت کے ہنستے ہونٹوں کی بجلیوں
کو سمو لیا ہے
وہ جس کے انوار کے مقابل تو چاند تک بھی خجل ہوا ہے
وہ جس کا چہرہ، زبانِ قرآں میں والضُّحیٰ ہے
وہ جس کے گیسوئے عنبریں کو
خدا بھی والّیل کہہ رہا ہے
وہ جس کا حسنِ ازل جہاں میں
جمال و حسن و کمال و خوبی کی انتہاؤں کی انتہا ہے
حدِّ امکاں سے بھی ورٰی ہے
وہ مصطفٰی ہے، وہ مجتبیٰ ہے
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
زمانے بھر کی حلاوتوں کی مٹھاس ساری نچوڑ لیجے
جہان بھر کی برودتوں کی تمام ٹھنڈک بھی جوڑ لیجے
جو ہو سکے تو
فلک کے تاروں کی، ماہِ کامل کی ، مہرِ تاباں کی روشنی بھی
زمین بھر کی فروزاں شمعوں کی، شب چراغوں کی ساری لَو بھی
چمکتے ہیروں کی، سب نگینوں کی، موتیوں کی کمال چھب بھی
گلاب چمپا کی ، یاسمن کی ، تمام قسموں کی ہر مہک بھی
حریرودیباو پرنیاں کی ملائمت کی ملائمت میں سمیٹ لیجے
پھر ان کی ساری
نفاستوں سے، نظافتوں سے، لطافتوں سے
جو کوئی نقشِ جمیل ابھرے
جو کوئی عکسِ حسین چمکے
جو کائناتِ جمال ٹھہرے
وہی ہے احمد وہی محمّد
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وہ حسنِ باطن وہ حسنِِ ظاہر
وہ نُورِ اوّل وہ نُورِ آخر
وہ روحِ گیتی
وہ جانِ عالم
’’ بے سایہ و سائبانِ عالم‘‘
وہ نُورِ حق کا جلیل پرتو
ہوا نہ جب تک تھا اس جہاں میں وہ نور افشاں وہ جلوہ آرا
تو نامکمل تھا دستِ قدرت کے شاہکاروں کا سب نظارا
اسی کی تکتے تھے راہ شب بھر
ستارے آنکھیں جھپک جھپک کر، چمک چمک کر
تمام کلیاں تمام غنچے
بس ایک اس کے ہی منتظر تھے
گھٹائیں اُٹھتی تھیں اس کی خاطر
ہوائیں گاتی تھیں گیت اس کے
اسی کے آنے کے شوق میں تو زمانہ کروٹ بدل رہا تھا
زمیں بھی اس کے ہی راستوں میں بچھی تھی آنکھیں بچھا رہی تھی
اسی کی راہوں میں چاند سورج بھی دوڑتے تھے مچل مچل کے
وہ شیث و نوح و خلیل ، یوسف
کلیم و عیسیٰ مسیح سارے
خدا کے جتنے پیامبر تھے
اسی کے رستے سجا رہے تھے
اسی کے ڈنکے بجا رہے تھے
اسی کی آمد کی سب نویدیں ،جہان بھر کو سنا رہے تھے
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہوا جو اس کا ظہورِ قدسی
زمانہ جھوما، زمین جھومی
ہوائیں مہکیں ، گھٹائیں برسیں، فضائیں چمکیں
گلوں پہ رنگِ شباب آیا
روش روش پہ نکھار آیا
نگارِ فطرت کے ذرّے ذرّے کو نُورِ فطرت نے جگمگایا
پھر ایسے نُور و سرور و رحمت کے جگمگوں میں وہ نُور آیا
یہ اس کے آنے کا ہی اثر تھا
کہ آگ جلتی ہزار برسوں کی بجھ گئی تھی
وہ قصرِ شاہاں کے اونچے مینار تھر تھرائے تھے گر گئے تھے
یہ اس کے آنے کی ھیبتیں تھیں
کہ بُت بھی سجدوں میں جا پڑے تھے
وہ ایسا دُرِّ یتیم آیا
کہ اس نے آکر
سبھی یتیموں کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھ کر
جہاں میں ان کا شرف بڑھایا
وہ ایسا ہادی کریم آیا
کہ اس نے آکر
عداوتوں کے ببول چُن کر
محبّتوں کا چمن بسایا
وہ ایسا محسن عظیم آیا
کہ اس نے آکر
ستم گروں کے ستم مٹا کر
عطا و بخشش کے گُل سجا کر
جمالِ انساں کو تازگی دی
وہ ایسا عادل عدیل آیا
کہ اس نے آکر
برابری کے چلن سکھا کر
تمیزِ خوردو کلاں مٹا کر
وہ بندگی کو عروج بخشا
کہ خواجگی کو بھی رشک آیا
وہ ایسا رہبر حلیم آیا
کہ اس نے آکر
منافقت کا ، مغائرت کا
دلوں سے یکسر نشاں مٹایا
ستم شعاروں کو دیں دعائیں
تو دشمنوں پر بھی رحم کھا کر،معاف کر کے گلے لگایا
وہی ہے انسانیت کا محسن
وہی ہے سب کا کریم آقا
عظیم آقا! کریم آقا!
رؤف آقا! رحیم آقا!
درود لاکھوں سلام اس پر
سلام لاکھوں درود اس پر
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مچی ہے دنیا میں دھوم اس کی
بپا ہے عالم میں جشن اس کا
ہے فرض ہر ایک آدمی پر
کہ اس کے آنے کی بہجتوں میں
مسرّتوں کے، محبتوں کے، عقیدتوں کے وہ گیت گائے
کہ سارے عالم کو وجد آئے
مجھے بھی ماہِ ربیع الاوّل
بصد بہاراں، بصد مسرّت
بلا رہا ہے، ہنسا رہا ہے
مجھے بھی لازم ہے موسمِ گل میں گیت گاؤں
خوشی مناؤں
میں ان بہاروں کو دوں سلامی
قدم قدم پر جبیں جھکاؤں
میں شکریے کے ہزاروں سجدے لٹاچکا ہوں لٹا رہا ہوں
میں ان بہاروں کا ہمنوا ہوں ، میں گیت بہجت کے گا رہا ہوں
مگر شگفتِ بہار میں بھی
اس عہدِ گُل کے نکھار میں بھی
مرے جگر میں اک آگ ایسی دہک رہی ہے
جو میری جاں کو جلا رہی ہے
میں ناتوانوں کے قافلے میں بھی سب سے پیچھے ہوں پا شکستہ
میں بے نواؤں کی انجمن میں بھی ایک ٹوٹی ہوئی صدا ہوں
مری ندامت ہی میرے دل کو
لہو کے آنسو رلا رہی ہے
مجھے ندامت ہے میرے رہبر
مرے پیمبر
میں جی رہا ہوں مگر جہاں میں
ارضِ کشمیر و بُوسینیا میں
حسین بچے، جمیل بوڑھے، جوان رعنا، عفیف بہنیں، نظیف مائیں
دریدہ کلیاں، بریدہ غنچے، لہو میں ڈوبی بدن قبائیں
مجھے رلائیں
مرے پیمبر
اے میرے رہبر
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سبزہ زاروں کی سرزمیں پر
گُلوں کے اس فرشِ مخملیں پر
ہزاروں لاکھوں گلاب چہرے
وہ تیرے دیں کی کتاب چہرے
وہ جراتوں کا نصاب چہرے
تجھی سے نسبت کے جرم میں وہ
کٹے پڑے ہیں
خاک و خوں میں اٹے پڑے ہیں
ستم گروں کے نگر میں جیسے
شرف و عزّ و ناموس کھو کر
ورق ورق وہ دریدہ ہو کر
بکھر گئے ہیں
ربیع الاول
بہارِ عالم کی گُل رُتوں میں
تری محبت کے نقش بن کر
لہو نہا کر نکھر گئے ہیں
مرے پیمبر!
اے میرے رہبر!
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
تری محبت میں غم کے مارے
دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں
وہ جانیں اپنی گنوا رہے ہیں
وہ گردنیں بھی کٹا رہے ہیں
لبوں پہ ان کے ہیں چپ کے تالے
دلوں سے اٹھتے ہیں پھر بھی نالے
اب ان کی آنکھیں
گدا کے کشکول بن کے چاروں طرف لگی ہیں
کوئی نہیں ہے جو آگے آئے
ان کے درد و الم مٹائے
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ربیع الاول کی ان بہاروں کو اک ذرا سا اشارہ دیجے
حکم کیجے
کہ ارضِ کشمیر و بوسینیا پر
کوئی کرم کی گھٹا اٹھائیں
کہیں سے کوئی دلیر قاسم
کہیں سے کوئی شجیع خالد
کہیں سے کوئی فاروق آئے ، جو ان کے درد و الم مٹائے
مرے پیمبر !
اے میرے رہبر !
مجھے ندامت ہے زندگی پر
کہ میں جی رہا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عظیم آقا ! کریم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ترے فقیروں کی خیر آقا ! ترے گداؤں کی خیر آقا !
جو دب رہی ہیں جو بجھ رہی ہیں
اب ان صداؤں کی خیر آقا !
تری نمازوں کی خیر آقا ! تری اذانوں کی خیر آقا !
جو مٹ رہے ہیں سمٹ رہے ہیں
اب ان ترانوں کی خیر آقا !
شہیدِ کرب و بلا کا صدقہ
حنین و بدر و احد کے سارے وفا شعاروں کی جاں سپاری
وفا کا صدقہ
اب ارضِ کشمیر و بوسینیا سے
ستم کی گہری یہ رات بیتے
یوں جبر ٹوٹے یوں کفر بھاگے
کہ اہلِ حق کی سپاہ جیتے
کریم آقا ! عظیم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا !
ربیع الاول کے زندہ لمحوں کو حکم دیجے
کہ ارضِ کشمیر و بوسینیا پر
نئی رُتوں میں نئی پھبن سے
نئی دھنک سے نئی مہک سے
روش روش پر بہار برسے
ربیع الاول کرم کی برکھا
رحمتوں کی پھوار برسے
کریم آقا ! عظیم آقا !
رؤف آقا ! رحیم آقا
درود تجھ پر سلام آقا !
سلام تجھ پر درود آقا !