مجھے بلائیں مرے غم گسار اب کے برس
میں لاؤں در پہ دروُدوں کے ہار اب کے برس
فراقِ شاہ میں مرجھا گیا ہے نخلِ حیات
خدایا اس پہ بھی آئے بہار اب کے برس
نصیب جاگے کہ روضے کے سامنے ہی رہوں
گزاروں ایسے ہی لیل و نہار اب کے برس
مرا خیال ترے روضے کا طواف کرے
مرے سخن پہ بھی آئے نکھار اب کے برس
یہ آرزو ہے زیارت کی بھیک مل جائے
بھکاریوں میں ہو میرا شمار اب کے برس
نظر میں سبز بہاروں کا نور اترے گا
ملے گا دل کو بہت ہی قرار اب کے برس
ہے ناز کی یہ تمنا کہ چاکری میں رہوں
جو رکھ لیں مجھ کو مرے تاجدار اب کے برس