اردوئے معلیٰ

مجھے بھی یاد ہے وہ دن کہ جب میں شاداں تھا

فضائے طیبہ میں کچھ ساعتوں کا مہماں تھا

 

خوشا کہ میں بھی مدینے کی خُلد میں پہنچا

جہاں پہنچنے کا مدت سے دل کو ارماں تھا

 

خوشا کہ گنبدِ خضرا کی ضو نگاہ میں ہے

ابھی تلک تو مرا خواب ہی درخشاں تھا

 

سلام کرتا تھا آنکھوں سے اُن فضاؤں کو

کہ جن فضاؤں میں آقا کا نور ارزاں تھا

 

قریبِ گنبدِ خضرا بھی دل رہا لرزاں

مُوَاجَہَہ سے جدائی کا غم، نمایاں تھا

 

شکستہ دل تھا ندامت کے چند آنسو تھے

درِ نبی پہ مرے پاس بس یہ ساماں تھا

 

نڈھال میرے گناہوں نے کر دیا تھا مجھے

فضائے نور میں اِک خوف دل میں پنہاں تھا

 

اشارہ پاکے میں جآؤکَ سے وہیں پہنچا

مرے گناہوں کا آقا کے پاس درماں تھا

 

نگاہِ لطف کی درخواست اعتراف کے ساتھ

اُنہی سے کی، کہ وہیں مغفرت کا ساماں تھا

 

درِ نبی پہ پہنچ کر سکوں ملے تو کہوں

حضور ! آج تلک میں بہت پریشاں تھا

 

وہ لمحہ آج میسر ہوا ہے قسمت سے

جو اب سے پہلے مرے قرب سے گریزاں تھا

 

دیا ہے اذنِ حضوری تو اب حضور ! مجھے

یہیں قیام میسر ہو جس کا ارماں تھا

 

زمینِ طیبہ میں جب دفن ہو عزیزؔ احسن

کُھلے، کہ روزِ الست ایک یہ بھی پیماں تھا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات