مجھ کو حصارِ حلقۂ احباب چھوڑ کر
صحرا ملا ہے گلشن شاداب چھوڑ کر
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر
سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال
دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر
اوج فلک سے گر گیا تحت الثریٰ میں عشق
طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر
مسجد کی پاسبانی پر اب آ گئی ہے بات
اٹھنا پڑے گا منبر و محراب چھوڑ کر
ہر چشم زیرِ خواب ہے یا زیرِ بارِ اشک
دیکھوں کسے میں دیدۂ مہتاب چھوڑ کر
نکلے رہو گے دوزخ لیل و نہار میں
کب تک ظہیرؔ جنتِ بیتاب چھوڑ کر