مجھ کو چھپا حروف کے آنچل میں شاعری
میں پھر شکستِ خواب کے صدمے سے چُور ہوں
بوسیدگی کی گرد اُڑا ، نرم پُھونک سے
میں باقیات ہائے گزشتہ غرُور ہوں
صفحاتِ دل پہ آخری تحریر مٹ گئی
عریاں کھڑا ہوا ہوں کہ بین السطُور ہوں
وہ شخص جذب ہو گیا دہلیز میں تری
شاید یہ میں نہیں ہوں جو تیرے حضُور ہوں
تختوں میں بٹ چکا ہے سفینہ یقین کا
تختوں پہ کیا فنا کے سمندر عبُور ہوں
آندھی کے بعد پھر نہ دکھائی دیے کبھی
ہونٹوں کی تتلیاں کہ سخن کے طیُور ہوں
تیری طرف بڑھا تو بہت پاس تھا ترے
اِک عمر چل چکا تو کڑے کوس دُور ہوں
میری بلندیوں کا صِلہ ، صرف سوز ہے
ائے محوِ آرزُوئے تجلی ، میں طُور ہوں