مدحت نگار میں بھی ہوں خیرالانام کا
میں نے کیا ہے کام یہی ایک کام کا
پوشاکِ علم میرے قلم کو ملے حضور
اور زمزمہ عطا ہو درود و سلام کا
آندھی ہوائے شرکی چلی ہے مرے رسول
خدشہ بہت ہے آدمی کے انہدام کا
نعتِ حضور سنّتِ پروردگار کا
لیکن جواب کیا ہو خدا کے کلام کا
جلنے لگے ہیں چشمِ تمنّا میں پھر چراغ
چھیڑا ہے کس نے ذکر مدینے کی شام کا
آہستہ سانس لے مرے جذبوں کی چاندنی
رتبہ اُنہیں ملا ہے بڑے احترام کا
اُس در کی حاضری کی تمنّا کیا کرو
جو مرکزِ نجات ہے ہر خاص وعام کا
ذکرِ خدا کے ساتھ ہو ذکرِ حبیب بھی
مقصد یہی ہے میرے سجود وقیام کا
لوحِ خیال آج بھی ویران ہے ریاض
عکس جمال دیں گے وہ نقشِ دوام کا