مدفون مقابر پہ تحاریر کی صورت
ہم یاد بھی ہوں گے تو اساطیر کی صورت
ہم اہلِ قلم ، اہلِ سخن ، اہلِ زباں لوگ
خاموش ہوئے جاتے ہیں تصویر کی صورت
تھک ہار گئے چور ہوئے خواب تھکن سے
ممکن ہی نہیں تھی کوئی تعبیر کی صورت
شکوہ تو نہیں خیر مگر یوں ہے کہ دل میں
اک بات ترازو ہے کسی تیر کی صورت
وہ قحط پڑا شہرِ لطافت میں کہ آخر
رانجھوں کو فراموش ہوئی ہیر کی صورت
ہے یاد اگر کچھ تو وہ چابک کی صدا ہے
دیکھی تھی کہاں مڑ کے عناں گیر کی صورت
خیرہ ہوئی آنکھیں ہیں کہ حیرت سے پھٹی ہیں
عریاں ہوا جاتا ہے وہ شمشیر کی صورت
جگنو ہے کہاں رات کی وحشت کا مداوا
بنتی ہے کہاں آہ سے تاثیر کی صورت
رکھا ہے خرابے کو بہت سینت کے ناصر
جاتی ہی نہیں آنکھ سے تعمیر کی صورت