مدینہ شہرِ دلنشیں ہے نُور بار، مُشکبو
یہ بام و در ہیں ضَو فشاں، وہ رہگُزار مُشکبو
عجیب کیف بار ہے خیالِ عرصۂ لقا
تمام رات گُلبدن ہے، انتظار مُشکبو
کریم تیری نعت نے بھرم رکھا ہے نُطق کا
سخن کے آس پاس ہے کھِلا حصار، مُشکبو
جہان بھر تو اوڑھ کر قبائے حرص ہے پڑا
مگر جہاں حضور ہیں، وہ اِک دیار مُشکبو
بیانِ حُسن سے ورا ہے شہرِ نور کی پھبن
وہاں کا دشت گُل بہ کف، ہے خار خار مُشکبو
فروغِ عظمت و کمال ہیں تمھارے روز و شب
ہے لیل رشکِ ماہتاب اور نہار مُشکبو
تمھارے خوانِ خیر پر ہیں بے کسوں کی رونقیں
تمھارے در سے ہو رہے ہیں بار بار مُشکبو
نظر میں تاب گو نہیں، زباں پہ ہے شکستگی
اُتر رہا ہے روح میں مگر قرار مُشکبو
فسادِ خَلق سے ہر اِک گُلِ طلب بکھر گیا
جو تیری زُلف سے سجی ہے وہ بہار، مُشکبو
عنایتوں نے بھر دیے ہیں بے بسی میں رنگِ نو
شفاعتوں سے ہو گئے گُناہ گار مُشکبو
ابھی سے مِل رہا ہے لمسِ باریابیٔ کرم
ہے مقتضا سے پہلے گردِ راہِ یار مُشکبو