مدینہ شہر میں اپنا قیام ہو جائے
زیارتوں سے یہ دل شاد کام ہو جائے
ترس رہا ہے یہ سرکار ! اذن دے دیجے
’’سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے‘‘
مدینے شہر کی مٹی ملے جو مدفن کو
اگرچہ نیچ ہوں ، اونچا مقام ہو جائے
مدینے جانے کو آقا، نہیں ہے زادِ سفر
جو آپ چاہیں تو سب انتظام ہو جائے
مرے وطن کا مقدر تبھی تو بدلے گا
مرے نبی کا جو رائج نظام ہو جائے
غلام آپ کے در پر بلال بن جائے
جو اک اشارۂ خیر الانام ہو جائے
مدینہ دیکھ لوں اک بار پھر دعا ہے مری
وہیں جلیل کا جیون تمام ہو جائے