اردوئے معلیٰ

مدینے کا سفر ہو اور میں ہُوں

مقدر اوج پر ہو اور میں ہُوں

 

چلوں اے کاش میں شوق و ادب سے

میسر چشمِ تر ہو اور میں ہُوں

 

اذاں رس گھول دے کانوں میں میرے

مدینے کی سحر ہو اور میں ہُوں

 

تمنا ہے شہا یُوں موت آئے

تمہارا سنگِ در ہو اور میں ہُوں

 

یونہی گُزرے یہ میری زندگانی

شہا طیبہ نگر ہو اور میں ہُوں

 

مِلے مَلنے کو مُنہ پہ خاکِ طیبہ

یہی عیدی اگر ہو اور میں ہُوں

 

نہ چُھوٹے ہاتھ سے دامانِ مُرشد

سدا بس یہ ڈگر ہو اور میں ہُوں

 

ثنائے رحمتِ کونین مرزا

وظیفہ عُمر بھر ہو اور میں ہُوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ