مری شکست ہی کم سانحہ نہ تھی اس پہ
غرورِ عشق کا ماتم ، الگ قیامت ہے
لہو لہو سہی سینہ مگر مبارک ہو
میں چھو کے دیکھ چکا ہوں کہ دل سلامت ہے
بلندیاں چلو نیزے کی ہی سہی لیکن
تمہارا سوختہ سر اب بھی سرو قامت ہے
مرے ہی گھر میں جو رہتی ہے ایک مدت سے
مری ہی شکل و شباہت کی اک ندامت ہے
گلوں کا ہو کہ لبوں کا ہو یا لہو کا ہو
یہ لال رنگ مرے عشق کی علامت ہے
یہ اور بات کہ دستار چبھ رہی ہو تجھے
ترا فقیر تو آسودہِ ملامت ہے