اردوئے معلیٰ

مری طلب تو مری فکرِ نارسا تک ہے

یہ حرف و معنیٔ مدحت تری عطا تک ہے

 

جہاں بھی ہوں تری رحمت کے دائرے میں ہوں

مری خطا بھی تو آخر مری خطا تک ہے

 

اُتر رہے ہیں یہ رنگوں کے قافلے پیہم

ُتو اذن دے، انہیں جانا تری ثنا تک ہے

 

خجل ضرور ہوں، نامطمئن نہیں ہوں مَیں

کہ سلسلہ تری بخشش کا انتہا تک ہے

 

نئے معانی میں ڈھلنے تھے حرفِ فتح و شکست

حسینؑ ایسے نہیں آیا کربلا تک ہے

 

ورائے پردۂ نورِ نہاں، کسے معلوم

خرد تو محوِ سفر پہلے نقشِ پا تک ہے

 

مدینے جانے کا مخصوص اذن تھا مقصودؔ

کرم ہوا ہے کہ یہ سلسلہ گدا تک ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔