مری کہانی میں کردار بھی اسی کا تھا
سہا جو میں نے وہ آزار بھی اسی کا تھا
وہ جس کو ہونے کا احساس بھی دیا ہم نے
ہماری ذات سے انکار بھی اسی کا تھا
وہ ایک عہد بھی ہم سے وفا نہ کر پایا
مگر یہ دل کہ وفا دار بھی اسی کا تھا
بچھڑ گیا ہے تو اب دھوپ بھی ستاتی ہے
کھلا کہ سایہ ء دیوار بھی اسی کا تھا
گزر گئے یونہی محروم ِ مدعا ہم لوگ
گلی بھی اس کی تھی بازار بھی اسی کا تھا