مسلماں اپنے آقا کی اگر سیرت کو اپنا لے
اور اس دنیا پہ ہو جائے جمالِ پیروی ظاہر
سلوک اخلاص پر مبنی ہو جب ہر اک مسلماں کا
تو ایماں کی طرف دوڑے زمانے بھر کا ہر کافر
عمل کا بیج بویا جائے جب کشتِ عقیدت میں
تو کیسے رہ سکے کوئی زمینِ شور بھی عاقر
مرے آقا کی سیرت ہی دلوں پرحکمراں ٹھہرے
عقیدت کا اگر ہو جـذبۂ تقلید بھی ناصر
دلوں کو فتح کر لینے کا یہ واحد طریقہ ہے
کہ یہ اُمت مٹا دے تفرقے اللہ کی خاطر
یقینا پھر تو یہ اُمت زمانے بھر پہ چھا جائے
سراپا خیر کے ہوں فیصلے اس کے لیے صادر
تمام عصیاں مٹا دے نامۂ اعمال سے خالق
اسی اُمت پہ ہو جائے کرم اللہ کا وافر
فقط توبہ کا باقی ہے سہارا اس پہ مائل ہو
فلاحِ اجتماعی کا یہی ہے نسخۂ نادر
محمد کی غلامی شرطِ فتحِ بابِ رحمت ہے
زبانِ فعل سے گر ہو نہ کوئی اُمَّتِی منکر
یقینا پھر یہی اُمت بلندی پائے گی اک دن
کمال اس کو مُیَسَّر ہو گا دنیا میں یقینا پھر
زمانہ آج اس اُمت کی پستی پر جو ہنستا ہے
اسی اُمت کی رفعت کا بھی ہو گا ایک دن ناظر