مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض
مصدرِ ہشت جناں فیضِ بہارِ عارض
اے سیہ کارو ! تمہیں طلعتِ بخشش کی نوید !
لِلہ الحمد کہ ہے زلف کنار عارض
جیسے تفسیرِ "جلالین ” ہو گردِ مصحف
ایسے ہی خط ہے یمین اور یسارِ عارض
تیغِ تنویر سے کر دوں گا ابھی تجھ کو ہلاک
میں ہوں اے ظلمتِ غم ! عاشقِ زارِ عارض
شعلۂِ جرم نہ کیوں گلشنِ حسنات بنے ؟
’’نارِ دوزخ کو چمن کردے بہارِ عارض ‘‘
فن مہکتا ہے ، کہ ہے واصفِ زلفِ مشکیں
حرف روشن ہیں ، کہ ہیں مدح نگارِ عارض
چاہِ یوسف ذَقَنِ سیدِ عالم کی جھلک
نورِ کل ، حسنِ جہاں آئنہ دارِ عارض
حسنِ صورت کی نہیں اس میں معظمؔ تخصیص
قاسمِ جملہ محاسن ہے وقارِ عارض