میں کہ اجداد کی ارواح سے شرمندہ ہوں
سخت نادم ہوں کہ میں لاج نہیں رکھ پایا
اُس لہو کی ، کہ رگ و پے میں رواں ہے میرے
اُس شباہت کی ، کہ صورت میں نہاں ہے میری
اُس فصاحت کی ، کہ بنیادِ سخن ٹھہری ہے
اُس تغزل کی ، کہ جو طرزِ بیاں ہے میری
وہ بڑے لوگ تھے اور دل بھی بڑا رکھتے تھے
ننگِ اسلاف ہوں، کم بخت ہوں ، ناکام ہوں میں
وہ تو اعجاز تھے قدرت کی فیاضی کا مگر
ان کے کندن کے مقابل پہ مسِ خام ہوں میں
میں وہ کم بخت ، کہ اک بارِ امانت نہ اُٹھا
خود بھی ناکام رہا ، ان کو بھی ناکام کیا
اس تواتر سے گرا ہوں میں سرِ راہِ جہاں
میرا کیا نام تھا بس ان کو ہی بدنام کیا
معرکہ گاہِ زمانہ میں فنا کے ہاتھوں
میں شکستوں پہ شکستیں ہی لیے جاتا ہوں
ڈھیٹ ایسا ہوں کہ ہر بار پلٹ آتا ہوں
موت سے خوف زدہ ہو کے جیے جاتا ہوں
وہ بڑے لوگ تھے اور دل بھی بڑا رکھتے تھے
اس قدر حوصلے ،جتنے کہ خداؤں میں نہیں
ان کے حالات سے نسبت بھی کہاں کی ، کہ انہیں
مسئلے بھوک کے رہتے تھے ، وفاؤں کے نہیں