مفلسِ حرف کو پھر رزقِ ثنا مل جائے
رنگ و نکہت میں ڈھلی صوت و صدا مل جائے
پھر کوئی لعلِ یمن مشکِ ختن ارزاں ہو
خامۂ عجز کو پھر اذنِ ثنا مل جائے
سوکھے دھانوں پہ کوئی ابرِ کرم کا چھینٹا
فصلِ مدحت کو مری تازہ ہوا مل جائے
راہ میں بیٹھا ہوں میں کب سے بچھا کر آنکھیں
اے مرے ماہ لقا ! اب تو لقا مل جائے
دل کے آنگن میں کسی رات وہ منظر دیکھوں
چشمِ حیرت کو حقیقت کا پتا مل جائے
ہجر کی رات بھی پیاری ہے کہ غم ان کا ہے
طلعتِ فجر کبھی نُورِ ضحٰی مل جائے
پھر مہک جائے تری یاد سے یہ قریۂ جاں
شہرِ خوشبو سے جو آتی ہو صبا مل جائے
آہ ! دلگیر ہیں کشمیر کی مائیں بہنیں
میرے آقا تیری رحمت کی ردا مل جائے
جب بھی لیں نام ترا ایک سکینت اترے
غم کے ماروں کو ہر اک دُکھ کی دوا مل جائے
شرق تا غرب پھروں تیرے خدا کا ہو کر
دفن ہونے کو ترے شہر میں جا مل جائے
تیری سیرت تری مدحت سے رہے کام مجھے
زندہ رہنے کی یہی ایک ادا مل جائے
تیرا بندہ ہے تری آل کا نوکر نوری
بس تمنّا ہے شہا تیری رضا مل جائے