ایک اُمید پسِ دیدہء تر زندہ ہے
فاختہ خُون میں لت پت ہے، مگر زندہ ہے
ورنہ گُل چیں سبھی کلیوں کو مسل ڈالے گا
غیرتِ اہلِ چمن ! جاگ، اگر زندہ ہے
ریزہ ریزہ ہیں مرے آئنہ خانے لیکن
مُطمئن ہوں کہ مرا دستِ ہُنر زندہ ہے
سانحہ یہ ہے میرا رختِ سفر لُوٹا گیا
معجزہ یہ ہے میرا شوقِ سفر زندہ ہے
کٹ گریں ایک دو شاخیں تو کوئی فکر نہیں
پھر نمُو پائے گا اِک روز ، شجر زندہ ہے
آشیاں پُھونک دیا بُغض کے شعلوں نے مگر
راکھ میں اب بھی محبت کا شرر زندہ ہے