ملول خاطر و آزردہ دل، کبیدہ بدن
شب وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن
علاج زخم تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن
اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو
جلوس شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن
شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سر بریدہ بدن
یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سر پر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن
گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن
ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن
مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان شعر، غزل قامت و قصیدہ بدن