منزل کو جانتا تھا، اشارہ شناس تھا
ٹھہرا نہ وہ کہیں جو نظارا شناس تھا
انجام لکھ گیا مرا آغازِ عشق سے
اک شخص کس بلا کا ستارہ شناس تھا
ساگر کی سرکشی سے میں لڑتا تھا جن دنوں
واقف ہوا سے تھا نہ کنارہ شناس تھا
ہوتا نہ بے وفا تو گزرتی بہت ہی خوب
میں خوگرِ زیاں، وہ خسارہ شناس تھا
آزارِ مصلحت میں کہیں کھو گیا اے دوست
جو شخص مجھ میں تیرا اشارہ شناس تھا