منظرِ دشتِ تگ و تاز بدل کر دیکھا
رزق کو رفعتِ پرواز بدل کر دیکھا
سلسلہ کوئی ہو انجام وہی ہوتا ہے
ہم نے سو مرتبہ آغاز بدل کر دیکھا
بس وہی ہجر کے سرگم پہ وہی درد کی لے
مطربِ عشق نے کب ساز بدل کر دیکھا
میرے شعروں سے ترے رمز و کنائے نہ گئے
میں نے ہر مصرعۂ غماز بدل کر دیکھا
ہم گدایانِ محبت نے مقدر اپنا
کبھی کاسہ، کبھی آواز بدل کر دیکھا
دشمنی کیسے بدل دیتی ہے تیور اپنے
معجزہ میں نے یہ ہمراز بدل کر دیکھا
کیا کہیں کیسا تماشہ کوئے جاناں میں ظہیرؔ
یہ لب و لہجہ و انداز بدل کر دیکھا