اردوئے معلیٰ

منظر سے ہٹ گیا ہوں میں، ایسا نہیں ابھی

ٹوٹا تو ہوں ضرور، پہ بکھرا نہیں ابھی

 

وہ بھی اسیرِ فتنۂ جلوہ نمائی ہے

میں بھی حصارِ ذات سے نکلا نہیں ابھی

 

آسودۂ خمار نہیں مضمحل ہے آنکھ

جو خواب دیکھنا تھا وہ دیکھا نہیں ابھی

 

داغ فراقِ یار کے پہلو میں یاس کا

اک زخم اور بھی ہے جو مہکا نہیں ابھی

 

نومیدیِ قرار کے ماتھے پہ درد کا

اک نقش اور بھی ہے جو نکھرا نہیں ابھی

 

مل تو گیا ہے شوق کو رازِ دوامِ عشق

لیکن طلب کی راہ پر آیا نہیں ابھی

 

سود و زیانِ کارِ وفا یاد ہے مجھے

لیکن ترے حساب میں لکھا نہیں ابھی

 

کچھ دن ابھی رہیں گے یہ ملنے کے سلسلے

جانا تمہارے شہر سے ٹھہرا نہیں ابھی

 

سہتے رہو ظہیرؔ ابھی تہمتِ حیات

مقتل مقام زیست سے اونچا نہیں ابھی

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔