مُجھے نِسبت مُحمد مصطفی سے
بڑا تُحفہ مِلا فضلِ خُدا سے
گلوں کے لب پہ ہے ذکرِ محمّد
کہا کیا راز شبنم نے صبا سے
تصوّر میں مدِینے کی گلی ہے
میں گُم ہوں سوچ میں کُچھ اس ادا سے
عطا ہو رُوئے انور کا نظارہ
کہاں تک دل کو دُوں یُونہی دلاسے
مدینے کی گلی کوچوں میں گھوموں
جہاں رحمت برستی ہے گھٹا سے
پیئیں گے ہم رفیقو ایک دن تو
شرابِ معرفت کے ہم ہیں پیاسے
رشیدؔ اندر کے سب در کُھل گئے ہیں
فقط اک خُوشبُوئے صلِِّ علا سے