مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے
میرے اُفکار پہ اِک نوُر سا چھایا ہُوا ہے
حُجرۂ دل میں جلائی ہے جو توصیف کی لَو
اِس نے دل مطلعٔ انوار بنایا ہُوا ہے
خوش نصیبی ہے کہ روضے کی زیارت کر لی
مُجھ سی کمتر کو بھی طیبہ میں بلایا ہُوا ہے
آپ کے وَصل سے سَر سَبز ہے گُنبد سارا
اِسی رنگت نے اِسے خُوب سجایا ہُوا ہے
کاش طیبہ کی گدائی کا شَرف مل جائے
بس یہی شوق مرے دل میں سمایا ہُوا ہے
ناز عاصی کو بھی رُسوا نہ کیا آقا نے
میرے عیبوں کوبھی کملی میں چھپایا ہُوا ہے