اردوئے معلیٰ

مِری جبِیں میں یہ عاجزی اِس یقِین پر ہے کہ تُو ہے آقا

نہِیں اُٹھے گا جو تیرے سجدے میں میرا سر ہے کہ تُو ہے آقا

 

ہوا بھی مستی میں جھوم جائے، فضا نئے گیت گا سنائے

تِری ہی توصِیف میں تو اِیمان کی ڈگر ہے کہ تُو ہے آقا

 

زباں کہ لُکنت سے کٹ رہی ہے، جبِیں پسِینے سے تر بتر ہے

مگر خُدایا! نزولِ رحمت پہ بھی نظر ہے کہ تُو ہے آقا

 

ہزار چشمے اُبل پڑیں گے تو دِل کے ارماں نِکل پڑیں گے

کہ میرے جِیون کی جوت تیری ہی آس پر ہے کہ تُو ہے آقا

 

رشید حسرتؔ کے آنسُوؤں میں جھلک ہے کِتنی نِدامتوں کی

مگر عقِیدت کا اُس کے سِینے میں بھی اثر ہے کہ تُو ہے آقا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات