میرا قلم ہے نعت کے اِظہار کے قریب
لگتا ہے آج میں بھی ہوں سرکار کے قریب
جس کو عروج رفرفِ نعتِ حضور دے
ہو کیوں نہ عرشِ بخششِ غفّار کے قریب
شادابیاں نثارنے، خضریٰ کے حسن پر
’’جنت کھڑی ہے روضۂ سرکار کے قریب‘‘
ابرِ کرم کا ہالہ ہو جس طرح گردِ ماہ
چھائی ہے زلف یوں رخِ دلدار کے قریب
گھیرے ہیں پھول خارِ مدینہ کو اس طرح
پیاسے ہوں جیسے ساغرِ سرشار کے قریب
حاجت نہیں ہے چاند کی طیبہ میں رات کو
کیا کم ہے نور گنبد و مینار کے قریب ؟
چھینٹا ! نویدِ وصل کا دے دے سحابِ جود !
آبِ شفا ہو ہجر کے بیمار کے قریب
خوشبو میں بس گئی ہے قبائے حیاتِ کل
گھڑیاں گزاریں چند جو عطّار کے قریب
فیضِ ثنائے گل ہے معظمؔ کہ خود چمن
ہیں کسبِ فیض کو مرے اشعار کے قریب